پولیس ٹریننگ سکول بیٹھے ہوئے تعزیرات پاکستان کا مجموعہ ہاتھ میں ہے، جبکہ متعدد سوالات زہن کے دریچے پر دستک دئیے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ضابطہ فوجداری موجود ہے، جس کی کچھ دفعات پڑھ کر تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے کسی اولین زمانہ کے گھٹن زدہ معاشرے کی روداد پڑھ رہا ہوں۔
جیسے دفعہ 60 اور 61 ض ف ہی لے لیں۔ ایک بندہ پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے، اس کو پولیس تحویل میں لیتی ہے۔ ضابطہ کی رو سے اسے بندے (جس پر عملاً کوئی جرم ثابت نہیں ہوا) کو پولیس 24 گھنٹے تک اپنے پاس پابند کر لیتی ہے، مجسٹریٹ سے اس کے ریمانڈ کے لئے گزارش کی جاتی ہے۔ (جو رسماً مقدمہ کی نوعیت دیکھے بغیر ہی دے دیا جاتا)۔ یوں بندہ 15 دن تک پولیس کا پابند ہو کے رہ گیا۔ اب اگر 15 دن بعد جرم ثابت نہیں ہوتا تو وہ بندہ اس وقت، انرجی، پیسے، اور زہنی پریشانی کا ازالہ کیسے کرے؟ کس ادارے سے رجوع کرے؟
یا پھر لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ 1894 دیکھ لیں۔ چند دن پہلے ایک دوست بتا رہے تھے کے ان کی 2 کنال زمین گاؤں میں تھی، جس زمین کے ساتھ ان کا روزگار بھی منسلک تھا۔ مگر ایک ائیر رپورٹ کی تعمیر کے لئے ان کی زمین ضبط کر لی گئی۔ اور 32 ہزار کے قریب رقم ان کو طویل مشقت کے بعد ملی۔ اب یہ پرائیویٹ کمپنی یا سرکاری کسی پراجیکٹ کی غرض سے عام لوگوں سے چھینے جانے والی زمین کے متبادل زمین یا کاروبار کا تقاضا کس سے کیا جائے؟ اور اگر بندہ کا سارا کا سارا انحصار ہی اس زمین پر ہو تو اس پورے خاندان کی کفالت کی زمہ داری اب کس پر ٹھہرائی جائے؟
پنجابی کا ایک شعر ہے کہ:
کورٹ کچہری کھا گئی ستوی پیڑی وی
پیڑی جئی تھاں دا مسئلہ مکیا نئیں
(عدالت اور تھانے کی کاروائیاں سات نسلیں بھگت چکی ہیں، مگر ایک محدود متنازع زمین کا مسئلہ نہ حل ہو سکا)
حکومت قوانین جیسا کہ دفعہ 144 یا دفعہ 124-اے کا سہارا لیکر حزب اختلاف یا عوامی رد عمل کو کچل دیتی ہے۔ آج بھی جیلیں ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جن کے مقدمات زیر التوا ہیں، جن کی سزا یہ ہے کہ انھوں نے مقدمات ایسے ملک میں درج کروا لئے ہیں جہاں بعض اوقات پھانسی کے بعد معلوم ہوتا کہ بندہ پر جرم ثابت ہی نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر ملکی قوانین اتنے پچیدہ اور تکلیف دہ کیوں ہے؟ یہ کاروائیاں اتنی طول کیوں کھینچ جاتی؟ ان قوانین نے تو لوگوں کی آزادی، امن، انصاف کی یقین دہی کروانی تھی مگر یہ انھی کو صلب کیوں کیے جا رہے؟
ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ یہ قوانین یا ضابطے تو پاکستان کی پیدائش سے بھی پہلے کہ ہیں۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860ء، لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ 1894ء, ضابطہ فوجداری 1898ء, اور مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908ء میں نافذ ہوا تھا۔ اور یہ پاکستان کے قیام سے بالترتیب 87, 53, 49 اور 39 سال پہلے کہ ہیں۔ تو کیا پاکستان بننے کے بعد، بدلتے ہوئی عالمی و قومی پس منظر میں ضرورت نہیں تھی کہ ان قوانین کو بھی بدلا جاتا؟
اور یہ کہ یہ قوانین تو برطانوی حکومت نے اس وقت بنائے جب اس نے برصغیر کو محکوم بنایا، ان قوانین کا مقصد تو جنگ آزادی 1857ء کے بعد مقامی لوگوں کی ابھرتی ہوئی بغاوت کو کچلنا، لوگوں میں سامراجی تسلط کا خوف بٹھانا اور مقامی لوگوں کے وسائل لوٹنا تھا۔ تو کیا ضرورت نہیں تھی ان لوٹ کھسوٹ کے قوانین سے بھی آزادی کے وقت جان چھڑائی جاتی تا کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا حقیقی معنوں میں حصول ممکن ہوتا؟
یہی وہ سارے سوالات ہیں جو محترم آصف محمود صاحب نے اپنی کتاب "پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات" میں اٹھائے ہیں۔ مصنف سے میرا تعارف ان کے اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز سے ہوا تھا۔ سوشل میڈیا کے زریعے ان کی تحاریر سے بھی استفادہ ہوتا رہا، حال ہی میں ان کی یہ کتاب شائع ہوئی تو کتاب کے مطالعہ نے نا صرف الجھے ہوئے سوالات کی گتھی سلجھائی بلکہ کچھ ایسے حقائق سے بھی متعارف کروایا جو رسمی تعلیمی نصاب یا مباحث میں متروک ہو چکے۔
مصنف نے کتاب میں مقدمہ پیش کیا ہے کہ پاکستان میں رائج الوقت قوانین ایک خاص نوآبادیاتی پس منظر میں برطانوی حکومت نے اپنی کالونی برصغیر کے لئے بنائے تھے۔ اور آج ان قوانین کے ساتھ ایک مستحکم معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں۔ کیونکہ سات دہائیوں کے تجربات نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ آزادی کے وقت بظاہر تو برطانیہ سے آزادی حاصل کر لی گئی تھی مگر، نوآبادیاتی ساخت جس نے اس نظام کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا اس سے چھٹکارا نہیں حاصل کیا گیا۔
اس لیے آج اگر "اس نظام( نوآبادیاتی) کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا تو جتنی بھی رفو گری کر لی جائے، نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گی۔" مصنف ملکی بدحالی کی وجہ نوآبادیاتی ڈھانچے کو گردانتے ہوئے حل پیش کرتے ہیں کہ مقامی مسائل مقامی روایات سے ہی حل ہو سکتے۔ برصغیر نے اگر ایک خاص وقت میں معاشی خوشخالی دیکھی تھی تو وہ دراصل مقامی نظام پولیس، عدل و انصاف کی مر ہون منت ہے۔ مزید یہ کہ اس خطے پر اسلامی دور حکومت کے دوران رائج اسلامی قوانین نے اس معاشرے کو استحکام بخشا تھا۔ مگر آج ان قوانین کا تعارف بھی رسمی کتابوں میں موجود نہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:
اول یہ کہ اسلامی دور کی وہ قانونی و فقہی دستاویزات جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ بابری ،فتاویٰ امینیہ ،فتاویٰ ابراہیم شاہی،فتاویٰ فیروز شاہی، اور فتاویٰ الغاثیہ وغیرہ کو منظر سے پس منظر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اور ان کو تعصب میں آکر عوامی تعارف سے حذف کر دیا گیا ہے۔
دوم برطانوی دور حکومت میں نہ صرف مقامی ترقی کو بیان کرنے والی کتابوں کو ضائع کیا گیا، بلکہ جھوٹی تاریخ نگاری اور نئے معاشرتی ڈھانچے سے یہاں کے لوگوں میں احساس کمتری راسخ کی گئی۔ لوگوں کو باور کروایا گیا کہ ان کی مقامی تہذیب، ثقافت، یا علوم یورپی علوم کے مقابلے میں کم تر ہیں۔ اور یورپی اقوام نے مقامی علاقہ پر قبضہ یہاں کے جاہل عوام کو "تہذیب یافتہ" بنانے کے لئے کیا ہے۔ چونکہ یہ ایک باقاعدہ مشن کے تحت نفسیاتی و فکری کمتری کا احساس لوگوں میں راسخ کیا گیا ہے تو اب مقامی علوم پر "انگریزی" زبان میں لکھے گئے علوم کو ترجیح دی جانے لگی۔
مصنف کی رائے ہے کہ ہمیں آج اس فکری و نفسیاتی کم تری سے نکل کر، اپنی مقامی شناخت کو لیکر ایک نیا نظام تشکیل دیا جائے۔ غلامی کی باقیات کے بوجھ تلے کبھی آزادی نہیں مل سکتی۔
1 Comments
Nice 👍
ReplyDelete