کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں جن جن عناصر کا نمایاں کردار رہا ہے ان میں سب سے اقلیدی کردار علم کے متلاشی نوجوانوں, طالبعلموں, کا رہا. یہ وہ ہی کردار ہیں جو نیندوں میں سوئے ہوئے خوابیدہ خوابوں کو دن کی چمک دھمک دکھا کر حقیقت کا عملی جامہ پہناتے ہیں. لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب ان پر غفلت کی اندھی اندھیری رات طاری ہو جاتی ہے, تو یہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ٹھہرے کے ٹھہرے رہتے ہیں.
اگر ہم تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب ان نوجوانوں میں جوش و خروش پروان چڑھتا ہے تو یہ علم کے سمندروں میں غوطہ زن ہو جاتے. اور دنیا بھر کے علوم سے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے تراجم کر کے نشاۃ ثانیہ کا باعث بھی بنتے اور کبھی پاکستان جیسی مملکت خداد کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے. لیکن آج یہ نوجوان زندگی کے میدانوں میں اپنا لوہا منوانے سے کیوں قاصر ہیں؟ کیوں ان کی علم کے خزانوں میں عدم دلچسپی بڑھتی جا رہی؟ کیوں میٹرک میں نوے فیصد سے زائد نمبر لینے والا نوجوان مقابلے کے امتحانات میں مایوسی سے دو چار ہو جاتا؟
ان سوالوں کے جوابات جب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ طالبعلم کی زندگی میں لیے گئے شارٹ ٹرم ابجیکٹیوز (short term objectives) اس کے لانگ رن (Long Run) میں ناکامی کا باعث بنتے.
جیسا کہ ابتدائی ایام میں اس کو سائنس و آرٹس کے بنیادی تصورات کو جاننے کے بغیر اس کو کتابیں نگلنے اور پرچہ میں نکال دینے پر زور دیا جاتا. اس سے اس کی نہ صرف فہم و فراست میں کمی واقع ہوتی بلکہ وہ دور جدید کی ان بنیادی مہارتوں کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا جس کا تذکرہ یوول نوہراری اپنی کتاب "اکیسویں صدی کے اکیسں اسباق" میں کرتا ہے.
اور دوسرا مسئلہ یہ کہ اس کے لیے زندگی میں آگے بڑھنے کے شعبے صرف اور صرف میڈیکل اور انجنیرنگ سائنس تک محدود ہو جاتے. جس کا نتیجہ میٹرک سے آگے ڈراپ آؤٹس طالبعلموں کا سلوپ کافی حد تک نیچے کی طرف ہو جاتا.
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ان کے مقاصد کے حصول کے لیے ایسے سازگار ماحول شروع سے ہی فراہم کیے جائیں جو ان کے لیے آنے والی زندگی میں باعث فرحت ثابت ہوں. اور یہ کہ یہ نوجوان ملک و قوم کے لیے "کل کے قائد" کی سی صورت اختیار کر کے اپنی زندگیاں معاشرے کی اصلاح میں وقف کر دیں.
محمد ابرار
(یہ مضمون اردو کی اخبار, نوائے شمال سیالکوٹ, میں 07 مارچ, 2020ء کو شائع ہوا)
1 Comments
بہت عمدہ. ابرار صاحب مبارک ہو اھے آرٹیکل کی تحریر پر
ReplyDelete