قِصّہ تمام شُد

 


ایک طویل انتظار کہ بعد کتاب موصول ہوئی (قصہ تمام شد). کتاب میں کبھی پھول دن کے اجالے میں رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں تو کبھی شام کی تاریکی میں آسمان موتیوں کو دامن میں سمیٹے ہوئے دکھائی دیتا. ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہر جگہ ایک عکس مختلف شکلوں میں موجود ہے، بقول شاعرہ:



کبھی جو دلکشی کی خاطر سنورنے کا جی کرے

یوں چاند کی طرح مچلتا دیکھو تو جان لینا میں وہی ہوں



پھولوں میں مہکتی خوشبو کی طرح
مجھ میں بسا ہے وہ رنگ و بو کی طرح

مصنفہ عاطفہ بنت ضیاء سے ملاقات یو ایم ٹی (UMT) میں ہوئی، جب استاد مخترم وقاص صاحب کے ہمراہ لاہور جانا ہوا تھا۔ نہایت عاجز، خوش مزاج اور زہین جیسا سنا تھا ویسا پایا۔ ادب کے ساتھ ایک گہرا لگاؤ ان کی طبعیت میں دکھائی دیتا. بقول شاعرہ ان کا تعارف اس شعر سے کچھ کم نہیں:

نہ ساحرسا، نہ فیض، نہ اقبال ہوں میں
میرے الفاظ ہی ہیں بس پہچان میری

اشعار میں جس قدر محبت شامل ہے، وہ قاری کو اپنی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔ فراق و وصل، شب تنہائی جو اردو ادب کی شاعری میں نمایاں موضوعات ملتے بالکل اسی طرح اس کتاب میں اپنا گھر بنائے ہوئے۔

تو جب سے گیاہے مت پوچھ اے صنم 
دل ایسے جیسے خالی مکاں ہوا کرتے ہیں

کتاب کے ورق الٹتے جاؤ اور الفاظ کے سحر میں بے قابو الجھتے جاؤ.  ذوق شاعری نے تو  بچپن سے ہی دل کو مائل کر لیا تھا تو بعض اوقات اس طرح کی کتاب تخلیات کو ایسی جلا بخشتی ہے کہ پھر تصورات کی دنیا میں ہی جا کر پناہ لی جاتی ہے. یہ سب عشق ہی ہے جو انسان کی عادات کو تبدیل کر کے اسے ایک نئی زندگی فراہم کرتا ہے. بقول شاعرہ:

عشق سکھا دیتا ہے عاشق کو آداب عشق
ایسے تو نہیں چاک گریباں ہوا کرتے ہیں

اگرچہ اس ڈیجیٹل دور نے کتابوں سے فاصلے بڑھا دیے ہیں, اور اس کی جگہ پی ڈی ایف جیسی سروسز متعارف کروا دی ہیں, لیکن جو سرور کتابوں کو ہاتھوں میں لئے لکھاری کے مشاہدات و تجربات کو زیر غور کرنے میں ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں.

بھید جتنے تھے سب عیاں کر دیے
شب بھر کوئی داستاں سناتا رہا اک شخص

قصہ مخنتصر کتاب اردو ادب میں ایک نمایاں اضافہ ہے جس کے لئے ہمیشہ سے جگہ رہی. احساسات و جذبات کبھی بھی الفاظوں کی شکل میں بند نہیں کئے جا سکتے لیکن ان کو محفوظ رکھنے میں الفاظ اقلیدی کردار ادا کرتے, گویا اس صورت میں کچھ باتیں ان کہی ہی رہ جاتی جن کو قاری محسوس تو کر سکتا لیکن سننے کی جسارت نہیں رکھتا:

کچھ اَن کہی سی باتیں اَن سنی ہی رہ گئیں
رنج نہ کر, بھول جا, قصہ تمام شد

از قلم: محمد ابرار



Post a Comment

0 Comments