یہ بات ہے اُن دنوں کی کہ جن دنوں کچھ عجب ہی نظارے
تھے
وہ ہوئے تو اَزل سے ہی نہیں ہمارے پھر بھی ہمیں جان سے پیارے تھے
اُن کی آنکھوں میں ڈوب جاتے اکثر کئی ویسے عاشق مزاج لوگ
اور جو تھے ہِجروصال کےپُرستارانہیں وہ لگتے ہی بیچارے تھے
رگِ جاں سے جو ہوئے واقف تو چھڑانے لگے دامن اپنا
وہ جن کو ہم اب تک سمجھتے رہے عمر بھر کے سہارے تھے
وہ جفا کے پیکرِ عشق تھا، جو چرایا تھا ظلمتوں سے ہم نے
سرِ بازار جب بکا تو سمجھے یہاں رہنے سے تو بہتر کنارے تھے
شامیں تو منتظر ہی رہیں خوشیاں لوٹانے کی ہمیں ،لیکن
یہ اُداسیوں میں لپٹی ہوئی راتیں ہمارے فنا ہونے کے مُبہم اشارے تھے
اور عین ممکن تھا کہ اگر ہمارے بخت میں، لفظوں کی سیاہی نہ ہوتی
تو ہم بھی چراغ فروزاں ہوتے جیسے اُن کے آنگن میں وہ چمکتے ستارے تھے
✍🏼شہریار حسین صاحب ✨
0 Comments