(محمد ابرار)
مئی 16, 2022
گاؤں کی کچی پگڈنڈیوں پر کچی عمر کے خستہ خیال لئے جب اکثر سورج کے غروب ہونے کے منظر کو دیکھنے کے لئے ٹہل رہا ہوتا ہوں تو اکثر یہ خیال زہن میں آتا ہے کہ خوبصورتی کس بلا کا نام ہے؟ کبھی یہ فطرت کے سنہرے رنگوں میں نظر آتی، کبھی یہ بچوں کی ننھی منھی مسکراہٹوں پر ڈھیرے جمائے ہوتی، کبھی یہ دور تپتے ہوئے صحرا میں اپنے وجود لئے پھرتی، تو کبھی یہ پہاڑوں کے دامن میں بسیرا کیے ہوتی، کبھی یہ ستاروں کی شکل میں آسمان پر بکھری نظر آتی، تو کبھی چاند یا سورج کے سفر میں ہمسفر ہوتی، کبھی پھولوں کے رنگوں میں تو کبھی گاؤں کی سادہ و رنگیں شاموں میں نظر آتی۔
مگر اس کا وجود محبت کے نہاں خانوں میں تو منفرد ہی ہوتا۔ یہاں خوبصورتی ساتوں آسمانوں و زمیں سے پرے دور ہو کر صرف ایک شخص کو ہی اپنی تمام کشش ثقل کا مرکز بنائے ہوتی! خوبصورتی یہاں ایک ایسا مقام لیکر آتی جس میں انسان تخیل کے سمندروں میں بھی اس چاشنی کو بیاں کرنے سے قاصر ہو جاتا، الفاظ تو یہاں پہنچ ہی نہیں سکتے۔ پھر اسی جذبے کو بیاں کرنے کی ادنی سی کوشش "شاعری" ہے۔ جیسا میر نے بھی کہا تھا نہ کہ:
شاعری کیا ہے؟ دلی جذبات کا اظہار ہے
دل ہی اگر بیکار ہے تو شاعری بیکار ہے
اس جذبے کو دل میں بسانے والے لاکھوں لوگ ہوں گے، مگر ہر ایک کا اظہار محبت الگ ہوتا۔ شاعر حضرات تو اس کو خیالوں کے بادلوں میں چھپے دھنک کے رنگوں کی طرح تلاش کرتے۔ محبوب کی محبت میں سکوں کے جام لئے جب یہ حضرات لکھنے بیٹھتے ہیں تو اپنی ہی دنیا کو بسا لیتے ہیں۔ پھر ان جذبوں کو سمجھنے کے لئے پڑھنے والوں کو بھی اس نظر آنے والی دنیا سے رخصت ہو کر جذبات کی ترجمانی کرنے والی کائنات میں داخل ہونا پڑتا۔ ایسی ہی ایک کائنات میں مجھے ٹہلنے کا موقع ملا جس کا راستہ ایک خوبصورت دوست نے اس وقت دکھایا جب میرے پسندید سیاہ رنگ میں لپٹی کتاب "دل خواب زد" مجھے ہاتھوں میں تھما دی۔
گھر آکر کتاب کھولی تو جن اشعار پر نظر پڑی انھوں نے مجںبور کیا کہ اب تو ایک رات میں ہی اسے مکمل کرنا پڑے گا کیونکہ انتظار ممکن ہی نہیں تھا:
دریا ہے اور پیاس بجھاتا بھی نہیں
وہ ہم کو چاہتا ہے، جتاتا بھی نہیں
چپ ہوں تو یہ گلہ کہ بہت بے خبر ہیں ہم
پوچھیں تو دل کا حال سناتا بھی نہیں
کتاب کی خوبصورت بات یہ کہ ارسلان عباس (شاعر) نے مکمل کتاب میں انتہائی نفاست کے ساتھ سادہ زبان استعمال کی ہے۔ اور سادگی حسن کی زبان ہوتی ہے۔ فلسفے کی بنیادیں بنانے والوں نے جب کلاسیکیت کی بنیادی رکھی تو اس پر عقل، الفاظ کی قیود لگا دی تھی مگر اہل محبت کہ ہاں جب یہ منظر آیا تو انھوں نے تمام اصولوں، بندشوں اور مصنوعی الفاظ سے آزاد کر کے "رومانوی شاعری" کی بنیاد رکھی۔ اس طرز کو ہی اس کتاب میں اپنایا گیا ہے۔
کتاب کا زیادہ تر حصہ تو اس رنج و غم کی کیفیت سے بھرا ہوا ہے جسے ایک عاشق اپنے محبوب کی یاد میں پل پل گزارتا ہے۔ کبھی یہ محبوب سے ملنے کا اضطراب ہوتا، تو کبھی اس سے ملکر وقت کے تیز رفتاری پر گلہ، کبھی یہ ملکر بھی نہ بجھنے والی پیاس کی شدت ہوتی تو کبھی یہ ہجر کے ماروں کو دید کی ایک ساعت ہوتی،مگر ان تمام حالات میں لبوں پر صدا ایک ہی ہوتی جو بذبان شاعر:
جو آپ ہم کو بہت بیقرار رکھتے ہیں
ہم اس کرم پر تشکر ہزار رکھتے ہیں
کتاب کا ٹائٹل بھی اسی لئے کتاب کے حوالے سے موضوع ہے کہ "زد" کی کیفیت ہی پوری کتاب کیں بکھری نظر آتی۔ اس سے بڑھ کر خوبصورت تشبیہ و استعارت کا استعمال جیسا کہ اس شعر میں ہے:
کس طرح پھر بھی دیکھنا چھوڑیں
اس کی صورت ہی خواب جیسی ہے
مخنتصرا یہ کہ شاعر نے عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کو کاغذی پیرہن پہنایا ہے۔ درد محبت ہو یا سکون محبت اشعار وہ ہی ہے "جو سنتے ہی دل میں اتر جائے" اور شاعر کا الفاظ کا چناؤ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔
0 Comments