سوزِ درد سے تڑپتا ہے قلب, اے یار
آگ کی چنگاری ہے اب باطن آب و خاک
شمع بجھ گئی, چار سُو ہو گیا اندھیرا
اس کالی رات نے دن کے اجالے پر کیا اب بسیرا
کہوں کیا کہ کس قدر ہے آہ سوزاں میں انگار
اک آہ نے ہے قلب و جگر کو کیا چاک چاک
اشک جگر سوز, بحر ندامت نے ہے آ گھیرا
خطا ہو گئی ہے, معافی کا ہے یہ مجرم طلبگار
نے مسرت, نے شادیانی کا پیام
سکونِ قلب کا منتظر ہے بندہ اشکبار
ہوا, سن لے تو ہی پکار, بن نامہ بریار
کہ فاصلوں سے ہے زمین و آسماں میں وسعت تا افلاک
تلخی ایام, خامشی عندلیب و طیور
ہجر خزاں میں باغ کو ہے پھر وصال بہار کا انتظار
محمد ابرار
اگست 24, 2020
0 Comments