موسیقی کی سیاست

 


اذقلم: آمنہ اشرف 

جون 6، 2022 


موسیقی ایک ایسا communication tool ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک گیت نگار اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ موسیقیت کے زریعے ذہنوں کی تسخیر کی جاتی ہے جس سے مختلف پیغامات کی ترسیل اور سنجیدہ موضوع کو زیر بحث لایا جاتا یے۔ موسیقی کی تشہیر میں کئ پہلو چھپے ہیں۔


اول، موسیقی کے معانی جاننے کی کوشش کریں تو "لطف اندوز ہونا" ، "جذبات کا ابھرنا"، پیغام کی ترسیل وغیرہ کے ہیں۔ گیت تو ایک  ایسی  کیفیت کا نام ہے جو ہمارے اندر چلنے والی ٹرین ، کشمکش، جذبات اور ایک مقصد کا ساتھی بھی بنتا ہے۔ہماری ثقافت میں بلکہ دنیا کی ہر ثقافت میں گیت نگاری کو بہت عروج ملا ہے۔ ہمارے صوفیا اکرام کے کلام کو موسیقی کی صورت میں نشر کیا گیا جس میں نوجوان میں مادر ملت کے لیے جوش ولولہ پیدا کرنا، ایک مقصد دکھانا اور ان کی ذہن سازی کے عوامل شامل ہیں۔اور سب سے نمایاں موضوع موسیقی میں عورت کا تذکرہ رہا ہے۔

پہلے پہل موسیقی کو کسی شادی میں ماہیے کے طور پر گایا جاتا تھا جس سے انسان کے اندر کی خوشی اور جذبات ابھرتے تھے۔ایسی گیت نگاری جس میں فحاشی کے بجاۓ ثقافت کو صیح معنوں میں پروان چڑھایا جاتا۔ 


دور حاضر میں موسیقی کی بات کی جاۓ تو اس میں بس فخاشی کی علامات ، زہنی غلامی کا شکار اور عورت کے خوبصورت مجسمے کی عکاسی کرنا رہ گیا ہے جس میں ہمارے گیت نگار کے ساتھ ساتھ میڈیا اپنے اشتہارات کے زریعے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج کی موسیقیت نے نوجوان کو کس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ 

آج کا نوجوان rape music ، شور شرابہ، ناچنا یہ سب زیادہ پسند کرتا ہے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نوجوان کیا یہ صلاحیت اوپر سے کے کر آیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہمارا سرمایہ دار طبقہ نوجوان کو ان کے مقصد سے ہٹانے کے لیے ایسے پروپگنڈہ تشکیل دیتا ہے کہ ایک گیت نگار کو بھی اضافی لاکھوں روپوں سے نوازا جاتا ہے۔ نوجوان کے ذہن کی تشکیل ہی اس طرح کی جا چکی ہے کہ وہ کوئ سنجیدہ موضوع کو سننا اور نہ ہی بات کرنا پسند کرتا ہے جس کے سنگین نتائج بخوبی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔


اب موسیقی کی سیاست میں جکڑی عورت کی ذات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ گیت نگار کا ہر دوسرا گیت عورت کے تبصرے پر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا گیت جس میں عورت کے گورے رنگ، کالی زلفوں، نشیلی آنکھوں ، سرخی مائل ہونٹ، دبلی پتلی اور لمبے قد کی تسخیر کی جاتی ہے۔ مشہور پاکستانی گیت نگار بلال سعید اپنے ایک گیت "دو نمبر میں دیواں تری اچی لمبی ہیل نوں" میں عورت کو دو نمبر میں بیچ رہا ہے۔ جس پر کوئ تنقیدی سوچ رکھنے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اور میڈیا اس کو ٹی وی اور اشتہارات میں اس طرح سے نشر کرتا ہے کہ جسے اب ماڈرن ثقافت اور فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔


بحر حال اب ضرورت اس امر کی ہے کی ہر چیز کو ایک تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی جاۓ۔ نوآبادیاتی نظام اور زہنی غلامی کے شکار سے چھٹکارا پایا جاۓ۔ بالخصوص ایک عورت کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو "دو نمبر" میں نہ بیچے۔ اب غور کیجئے گا کہ موسیقی جذبات، ثقافت اور کسی سنجیدہ موضوع کی عکاسی رہ گئ ہے یا سیاست بن چکی ہے جس میں عورت کے مجسمے کو ننگا کیا جاتا ہے۔

Post a Comment

1 Comments

  1. Music is fusion chain in our society.
    It can not be controlled but depends on individuals how they can sustain the values which should be in every civilized one.

    ReplyDelete